ہیلپ اینڈ سپورٹ
رابطہ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ؕ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْمِ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْمِ

چھٹا مرحلہ

امتحان کا انعقاد

(Conducting Exams)

اصول وضوابط بسلسلہ امتحان برائے تحفیظ القرآن

1.حفظ القرآن کا تقریری امتحان سال میں 4 مرتبہ (جنوری، اپریل، جولائی، اکتوبر میں) ہو گا۔

2.حفظ القرآن کے امتحان کے وقت امیدوار کے پاس مدرسہ سے جاری کردہ حفظ کی اصل سند/تکمیلِ حفظ کا تصدیق نامہ موجود ہونا ضروری ہے ورنہ امتحان میں شمولیت کی اجازت نہیں ہوگی۔

3.شعبۃ الامتحانات کنزالمدارس بورڈ پاکستان کی طرف سے شہر سطح پر 3 ممتحنین (Examiners) کا تقرر کسی ایک مقام پر کیا جائے گا۔ مقرر کردہ ممتحنین (Examiners) ہی حفظ القرآن کا امتحان لینے کے مجاز ہیں۔ اس کے علاوہ کسی اور کو امتحان لینے کی اجازت نہیں ہے۔ اسی طرح جس مقام کو متعین کیا جائے گا اسی مقام پر آ کر امتحان دینا ضروری ہو گا۔

4.کنزالمدارس بورڈ پاکستان سے ملحقہ اداروں کے سابقہ حفاظ بھی اپنے متعلقہ ادارے کے ذریعے امتحانی داخلہ فارم ارسال کر سکتے ہیں اور حفظ القرآن کا امتحان دے کر کامیاب ہونے کی صورت میں  کنزالمدارس بورڈ پاکستان کی سند حاصل کر سکتے ہیں۔ موجودہ طلبہ/طالبات کے لئے امتحان کے جو اُصول و ضوابط ہیں سابقہ حفاظِ کرام کے بھی وہی اُصول و ضوابط ہیں۔

تحفیظ القرآن کے امتحان کا انداز اور طریقہ کار

1.قرآنِ پاک کے حفظ کا امتحان لینے کے لئے 30 پاروں کو 5 حصوں میں تقسیم کیا جائے گا اور ہر حصّے سے یاداشت کا ایک ایک سوال کیا جائے گا۔ یوں کل 5 سوالات کئے جائیں گے البتہ ضرورت و حاجت کی بنا پر ایک سے زائد سوالات بھی کئے جا سکتے ہیں۔

2.ايک گھنٹے میں کم از کم 3 اور زياده سے زياده 4 امیدواروں کا امتحان ليا جا ئے گا نیز ایک وقت میں ایک ہی امیدوار کا امتحان لیا جائے گا۔

3.ايک سوال میں 3 غلطياں ہو جانے پر اس سوال کو منسوخ کر کے اگلا سوال کيا جائے گا۔

4.سوال کرتے وقت امیدوار کو کم از کم ايک لائن بلند آواز سے پڑھ کر سنائی جائے گی نیز امیدوار کی سمجھ میں نہ آنے کی صورت میں یہی لائن ايک سے زائد بار يا مزيد اگلی لائن بھی پڑھ کر سنائی جا سکتی ہے۔

5.سوال میں مکمل ايک رکوع اوّل تا آخر سنا جائے گا اور مکمل ايک رکوع سننے کی صورت میں سوال رکوع کی ابتدا سے کیا جائے گا يا پھرسوال میں 10 لائنیں سنی جائیں گی اور 10 لائنیں سننے کی صورت میں يہ 10 لائنیں  ابتدا، درمیان یا آخر کہیں سے بھی سنی جا سکتی ہیں۔

6.تعليمی امتحان برائے حفظ القرآن کے کل 100 نمبرہيں جس کی تقسیم کاری درج ذيل ہے:


يادداشت کے 60 نمبروں کی تقسیم و تفصیل  درج ذیل ہے:

7.يادداشت کے 5 سوالات میں سورت کا نام درست بتانے کے 5 نمبر، رکوع نمبر درست بتانے کے 5 نمبر اور غلطی کئے بغير درست سنانے کے 50 نمبر ہيں۔

8.ہر سوال میں يادداشت کے 12 نمبر ہيں۔

     ٭ سورت کا نام بتانے کا 1 نمبر، رکوع نمبر بتانےکا 1 نمبر اور بقیہ 10 نمبر سنانے کے ہيں۔

9.فی سوال يادداشت کے 12 نمبروں کی تقسیم کاری يوں ہو گی:

     ٭ سورت کا نام درست نہ بتانے پر 1 نمبر کاٹ ليا جائے گا۔

     ٭ رکوع نمبر بھی درست نہ بتانے پر مزيد 1 نمبر کاٹ ليا جائے  گا۔

10.اب سنانے کے بقیہ 10 نمبروں میں سے

     ٭ پہلی غلطی آنے پر 10 نمبروں میں سے 2 نمبر پھر دوسری غلطی آنے پر بقیہ 8 نمبروں میں سے  2 نمبر اور تيسری غلطی آ جانے پر بقیہ 6 نمبروں میں سے 2 نمبر اور کاٹ لئے جائيں گے۔

     ٭ اور آخر میں بقیہ 4 نمبروں کو اس صورت میں ديا جائے گا کہ اگر امیدوار نے تیسری غلطی آنے تک کم از کم 4 يا اس سے زائد لائنیں (اغلاط والی لائنوں کے علاوہ لائنیں) درست سنائی ہوں  بصورتِ ديگر یہ 4 نمبر بھی کاٹ لئے جائيں گے۔

11.يادداشت کے ايک سوال میں تیسری غلطی آنے پر سوال منسوخ کر ديا جائے گا۔

12.يادداشت کی مختلف اغلاط کی تعريف:

يادداشت میں 3 طرح کی اغلاط پائی جاتی ہيں:

(I)بھول جانے، کلمہ وغيره چھوڑنے يا بدلنے کی غلطی

(II) لفظی غلطی

(III) اٹکنے کے اعتبار سے غلطی

(I) بھول جانے، کلمہ وغيره چھوڑنے يا بدلنے کی غلطی:

     ٭ یعنی پڑھنے کے دوران کسی کلمہ، لائن يا آيت وغيره  کا بھول جانا يا جلد بازی کے سبب چھوڑ دينا يا بھول جانے کے سبب آگے پڑھ نہ پانا۔

     ٭ متشابہ کے سبب کلمات بدل دينا مثلاً رُسُلِهٖ کو رَسُوْلِهٖ يا خٰلِدِيْنَ فِيْهَا کو خٰلِدُوْنَ فِيْهَا پڑھ دينا۔

 (II)لفظی غلطی:

      ٭ یعنی حرف کو حرف سے بدل دينا مثلاً يَعْلَمُوْنَ کو تَعْلَمُوْنَ پڑھ دينا۔

     ٭ حرف گھٹانا يا بڑھانا مثلاً سَمٰوٰتٍ کو سَمَوٰتٍ يا بَيْنَ کو بَيْنَا پڑھ دينا۔

     ٭ حرکات کو تبديل کر دينا مثلاً قَالَ کو قَالُ يا ظُلَلٍ کو ظُلَلًا پڑھ دينا۔

     ٭ ساکن حرف کو متحرک اور متحرک کو ساکن پڑھ  دينا مثلاً اَلَمْ نَشْرَحْ کو اَلَمْ نَشَرَحْ يا خُلُقٍ کو خُلْقٍ پڑھ دينا ۔

     ٭ مشدّد حرف کوغير مشدّد اور غير مشدّد حرف کو مشدّد پڑھ دينا مثلاً اِيَّاکَ کو اِيَاکَ يا سَلَامُ کو سَلَّامُ پڑھ دينا۔

(III) اٹکنے کے اعتبار سے غلطی:

     ٭ ايک ہی سوال میں امیدوار بار بار اٹکے اور پھر بغير بتائے ازخود درست پڑھ لے تو اس طرح 2 مرتبہ اٹکنے پر رعايت ہے جبکہ تیسری مرتبہ اٹکنے  پر 1 غلطی شمار ہو گی۔

     ٭ اسی طرح ايک ہی سوال میں امیدوار کے غلط پڑھنے کی صورت میں فوراً غلطی بتانے کی بجائے امیدوار کو اعاده کروایا جائے گا يا توجہ دلا کر دوباره پڑھنے کو کہا جائے گااس طرح 2 بار اعاده کروانے يا توجہ دلا کر پڑھوانے کی رعايت ہے جبکہ تیسری بار ايسا ہونے پر اٹکنے کی 1 غلطی شمار ہو گی۔

ادائیگی کے 40 نمبروں کی تقسیم و تفصیل  درج ذیل ہے:

مخارج و صفات:                     20 نمبر                                                                                                                                                                                                               قواعدِ اجراء: 10 نمبر

معلوماتِ قواعد:                                     5 نمبر                                                                                                                                                               تلاوت (ترتيل سے): 5 نمبر

13.مخارج و صفات (20 نمبر): تمام حروف کے مخارج و صفات کی اچھی طرح جانچ کی جائے گی بالخصوص حروفِ قريب الصّوت (ت ط، ز ذ ظ، ث س ص، د ض، ک ق، ه ح، ء ع) اور بقیہ حروفِ مستعلیہ (خ، غ) کی جانچ پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔

14.امیدوار نے کسی ايک سوال میں مخارج و صفات کا بہت اچھی طرح لحاظ رکھا مگر دوسرے سوال میں کمزوری رہی تو پہلے سوال کے مطابق نمبر نہیں دئیے جائیں گے بلکہ پانچوں سوالات             کے مکمل جوابات سن کرمجموعی کیفیت کے مطابق نمبر دئیے جائیں گے۔

15.مخارج و صفات کے 20 نمبروں میں سے ہر حرف کی کمزوری پر 2 نمبر کاٹ لئے جائيں گے، 10 يا اس سے زائد حروف کی کمزوری پر تمام نمبر کاٹ لئے جائيں گے یعنی صفر نمبر ديا جائے گا۔

نوٹ: نمبروں کی کٹوتی عادتاً کمزوری کی صورت میں کی جائے گی۔ عادتاً کمزوری سے مراد پختہ کمزوری ہے جو اکثر جگہ آ رہی ہوتی ہے اور توجہ دلانے پر بھی باقی رہتی ہے۔

16.مخارج و صفات کے کل 20 نمبروں میں سے

     ٭ 16 تا 20  نمبر حاصل کرنے کی صورت میں مخارج و صفات کی کیفیت ممتاز

     ٭ 13 تا 15 نمبر حاصل کرنے کی صورت میں مخارج و صفات کی کیفیت بہتر

     ٭ 01 تا 12 نمبر حاصل کرنے کی صورت میں مخارج و صفات کی کیفیت کمزور شمار کی جائے گی۔

17.قواعدِ اجرا (10 نمبر): ان تمام قواعدِ حرکات، تنوين، حروفِ مده و کھڑی حرکات، حروفِ لين، قلقلہ، تشديد و قلقلہ مشدّد، نون ساکن و تنوين کے قواعد (اظہار، اخفاء، ادغام، اقلاب)، ميم ساکن کے قواعد (ادغامِ شفوی، اخفاءِ شفوی، اظہارِ شفوی)، تفخیم و ترقيق، مدات، زائدالف، متفرق قواعد و وقف وغيره کے اجرا میں اغلاط کی خوب جانچ کی جائے گی۔

18.امیدوار نے کسی ايک سوال میں قواعد کے اجرا کا بہت اچھی طرح لحاظ رکھا مگر دوسرے سوال میں کمزوری رہی تو پہلے سوال کے مطابق نمبر نہیں دئیے جائیں گے بلکہ پانچوں سوالات                                کے مکمل جوابات سن کر قواعد کے اجرا کی مجموعی کیفیت کے مطابق نمبر دئیے جائیں گے۔


19.ممتاز، بہتر اور کمزور کیفیت میں قواعد کے اجرا کی وضاحت اس طرح ہے کہ

     ٭ ممتاز کیفیت کے لئے تمام قواعد کی ادائیگی کا درست ہونا ضروری ہے، کسی ايک قاعده میں بھی چند مقامات پر کمزوری پائی گئی تو ممتاز کیفیت میں نمبر نہیں دئیے جائیں گےاور اگر تمام قواعد کی ادائیگی ہر ہر جگہ درست ہے تو ممتاز کیفیت میں نمبر دئیے جائیں گے۔

     ٭ بہتر کیفیت کے لئے ان تمام قواعدِ حرکات، حروفِ مده، کھڑی حرکات، حروفِ لين، قلقلہ، تشديد و قلقلہ مشدّد، مدات و وقف وغيره کا درست ہونا ضروری ہے اگر ان میں سے کسی ايک میں بھی چند مقامات پر کمزوری پائی گئی تو بہتر کیفیت میں نمبر نہیں دئیے جائیں گے نیز ان کے علاوه ديگر قواعدِ تنوين،نون ساکن و تنوين کے قواعد (اظہار، اخفاء، ادغام، اقلاب)، ميم ساکن کے قواعد (ادغامِ شفوی، اخفاءِ شفوی، اظہارِ شفوی)،تفخیم و ترقيق، زائد الف، متفرق قواعد وغيره میں سے کسی ايک قاعده میں بھی عادتاً کمزوری نہ ہو یعنی کبھی کبھار بے توجہی کے سبب ديگر قواعد میں سے چند ايک کی ادئیگی کمزور ہو جاتی ہوليکن توجہ دلانے پر امیدوار اس کمزوری کو فوراً درست کر ليتا ہو تو اس صورت میں بہتر کیفیت میں نمبر دئیے جائیں گے۔

     ٭ کمزور کیفیت کے لئے تمام قواعد میں سے کسی ايک قاعده کا بھی عادتاً کمزور ہونا  کافی ہے۔

نوٹ: عادتاً کمزوری سے مراد پختہ کمزوری ہے جو اکثر جگہ آ رہی ہے اور توجہ دلانے پر بھی امیدوار اس کمزوری کو  فوراً دور نہ کر سکتا ہو۔

20.معلوماتِ قواعد (5 نمبر): معلوماتِ قواعد کے کل 5 سوالات کئے جائیں گے۔ ہر سوال کا 1 نمبر ہے۔

تلاوت (ترتیل سے) (5 نمبر):


21.کمزور، بہتر اور ممتاز کیفیت میں نمبرات کی تقسیم کاری درج ذیل ہے:


22.حفظ القرآن میں کامیابی کا معیار 70 نمبر ہیں 69 نمبر ہونے کی صورت میں بھی دوبارہ سے امتحان دینا ہو گا۔

یاد رہے! دوبارہ امتحان نیا امتحانی داخلہ فارم مع فیس جمع کروانے کی صورت میں اگلے امتحان کے موقع پر  لیا جائے گا۔

اصول و ضوابط بسلسلہ امتحان برائے درسِ نظامی، تخصصات، تجوید و قراءت

1.امتحان صرف ان مدارس کے طلبہ و طالبات کا ہو گا، جن کا کنزالمدارس بورڈ پاکستان سے با قاعدہ الحاق (Affiliation) ہو چکا ہے اور ان کی الحاق فیس اور سالانہ فیس کلیئر (Clear) ہو۔

2.سالانہ امتحان پورے سال کے نصاب (Syllabus) سے ہو گا۔

3.الشہادۃ الثانویہ عامہ/الشہادۃ الثانویہ خاصہ سالِ اول کی کامیابی کے بعد سالِ دوم کا امتحان دو سال میں پاس کرنا ضروری ہے، زائد عرصہ کی صورت میں الشہادۃ الثانویہ عامہ سالِ اول اور الشہادۃ الثانویہ خاصہ سالِ اول کالعدم (Cancel) کر دیا جائے گا اور درجہ الشہادۃ العالیہ (A.) میں تین سال اور الشہادۃ العالمیہ (M.A.) میں پانچ سال کے اندر سالِ دوم کا امتحان پاس کرنا ضروری ہے، زائد عرصہ کی صورت میں سالِ اول کا امتحان کالعدم (Cancel) ہو گا-

4.درجہ متوسطہ اول میں اُمیدوار کی عمر کم از کم 11 سال، متوسطہ دوم میں 12 سال اور عامہ اول میں 13 سال ہونا ضروری ہے۔

نوٹ: رزلٹ کارڈ کے اجرا تک اُمیدوار کا مذکورہ عمر کا ہونا ضروری ہے لہٰذا پرنسپل کو چاہیے کہ ایسے امیدوار جو امتحانی داخلہ فارم جمع کرواتے وقت تو اس مقرر کردہ عمر (Age Limit)تک نہ پہنچے ہوں مگر رزلٹ کارڈ کے اجرا کی تاریخ تک مقرر کردہ عمر تک پہنچ جاتے ہوں ایسے طلبہ کے امتحانی داخلہ فارم شعبۃ الامتحانات کنزالمدارس بورڈ پاکستان کو ارسال (Post) کر دیں۔

5.سالانہ امتحان میں عامہ اول، خاصہ اول، عالیہ اول، عالمیہ اول میں شرکت کی تو اسی سالانہ (Annual) امتحان سے متصل ضمنی (Supplementary) امتحان میں نئے امیدوار کے طور پر بالترتیب عامہ دوم، خاصہ دوم، عالیہ دوم اور عالمیہ دوم میں شرکت نہیں کر سکتا۔ اگلے سال سالانہ میں ہی شرکت کا اہل (Eligible) ہے۔

6.مقطوع اللحیۃ طلبہ کو امتحان میں شرکت کی اجازت نہیں ہو گی۔

7.کنزالمدارس بورڈ پاکستان کے تحت درسِ نظامی اور تخصصات (Specialization) کے سالانہ (Annual) امتحان شعبان المعظم میں  منعقد کئے جائیں گے۔

8.تجوید و قراءت کا امتحان سال میں ایک مرتبہ درسِ نظامی و تخصصات کے امتحانات کے ساتھ  ہو گا نیز تجوید و قراءت کا امتحان  تقریری و تحریری (Oral & Written) صورت میں ہو گا۔

تحقیقی مقالہ جات  کی ہدایات و اصول و ضوابط

تحقیقی مقالات کا مقصد

مقالہ نگار میں علمی، فکری اور تحقیقی سوچ کی بیداری اور تحریری صلاحیتوں میں نکھار۔

محقق کی ذمہ داری

  1. علمی دیانتداری اور دلچسپی سے تحقیق کریں۔
  2. غیر مدلل آراء اور نقل سے اجتناب کریں۔
  3. تحقیق کے اخلاقی اصولوں کی پاسداری کریں۔
  4. اپنے تمام تر معاملات خود سے کریں کسی دوسرے پر انحصار ہرگز نہ کریں ۔
  5. محقق اگر اپنا مقالہ شائع کروانا چاہتا ہو تو وہ اشاعت سے قبل تحریری اجاز ت نامہ حاصل کرے۔

مقالے کی تحریر، کمپوزنگ اور رجسٹریشن کے اصول وضوابط

  1. مقالہ کم از کم 70صفحات پر مشتمل ہو۔
  2. Word فائل میں کمپوز کیا جائے۔
  3. کم از کم 50صفحات لازمی طور پر صلب موضوع سے تعلق رکھتے ہوں۔
  4. مقالہ کا سر ورق (ٹائٹل پیج) درج ذیل ترتیب سے تیار کیا جائے:

٭ عنوان مقالہ (30۔32 فونٹ)

٭ قوسین (       ) میں (البحث لنيل الشهادة العالمية في العلوم العربية والإسلامية "ماجستير")  لکھا جائے۔

٭ بورڈ کا مونو گرام (2×2) سائز میں۔

٭ مونو گرام کے نیچے  دائیں جانب مقالہ نگار کا نام مع عالمیہ اول کا رول نمبر۔

٭ بائیں جانب نگران مقالہ کا نام مع عہدہ۔

٭ آخر میں شعبۃ  الامتحانات  کا نام مع بورڈ کا نام (ایک لائن میں)۔

٭ جس ماہ میں مقالہ جمع کروانا ہے اس کا نام (قمری اور عیسوی دونوں اعتبار سے)۔

  1. مقدمہ (تعارفِ موضوع، اہمیتِ موضوع، مقاصدِ تحقیق، اسباب انتخابِ موضوع، فرضیہ تحقیق، سابقہ تحقیقات کا جائزہ اور منہجِ تحقیق)، فہارس (ابواب وفصول، آیات، احادیث، اماکن، اعلام اور مصادرو مراجع) اور متفرق صفحات (تسمیہ و تحمید، اظہارِ تشکر، خلاصۃ/نتائجِ بحث اور سفارشات) وغیرہ 50 صفحات کے علاوہ ہوں۔

نوٹ: فہارس کا ٹیبل بنانا ضروری ہے۔

  1. مشرف کی تصدیق میں تمام طلبہ کا  فارمیٹ ایک ہونا ضروری ہے۔ صرف اور صرف اپنا اور مقالے کا نام تبدیل ہو گا۔
  2. قرآنی آیات، احادیث اور اقوال کو تحقیقی رموز و اوقاف میں تحریر کیا جائے۔ جیسے ”تحقیق وتدوین کے اصول و ضوابط“ میں لکھا گیا ہے مثلاً قرآنی آیات کے لیے پھول دار بریکٹ ﴿  ﴾ کا استعمال کرنا، آیات کا ترجمہ کرنے کے لئے اول و آخر میں واوین ”   “ لگانا، احادیثِ مبارکہ لکھنے کے لئے ڈبل بریکٹ «قال قال رسول اللہ صلى الله عليه وسلم» لگانا نیز اقوال یعنی اقتباسات کو لکھنے کے لئے تحقیقی طریقہ کار کو مدنظر رکھتے ہوئے عبارت کے شروع اور آخر میں مقررہ فاصلہ (0.5) دے کر لکھنا نیز آیات، احادیث اور اقوال (جہاں عربی عبارات ہوں) کا عربی فونٹ (المصحف) مع اعراب کے ہونا ضروری ہے۔
  3. کاغذ کا سائز 6 ×11.6 انچ A4 ہو۔ جلد بندی کی طرف سے حاشیہ 1.25 انچ اور دوسری جانب کا 0.75 انچ ہو۔ اوپر اور نیچے کا حاشیہ ایک انچ ہو (حاشیہ کا مطلب ہوتا ہے کہ    Layout کو اوپن کر کے Margins میں جا كر مذکورہ بالا ہدایات کے مطابق صفحہ کا سائز چاروں جانب سے ایڈجسٹ کر لینا، بعض طلبہ کرام اس سے مراد کاغذ پر لگانے والا حاشیہ سمجھ لیتے ہیں اور صفحہ کی چاروں جانب  یہ حاشیہ لگاتے بھی ہیں جو کہ درست نہیں)۔
  4. ہر صفحے پر نمبر درمیان میں اوپر کی طرف لکھا جائے (نمبر لکھنے کے لئے کسی بھی قسم کی بریکٹ یا کالم یا باکس کا استعمال ہرگز نہ کیا جائے  بلکہ صرف سادہ انداز میں  نمبر لکھا جائے مثلاً 26 وغیرہ)۔
  5. حوالہ جات و حواشی سمیت فی صفحہ سطور کی تعداد 26۔24 ہونی چاہیے۔

مختلف عنوانات کا سائز درج ذیل ہے: ابواب کے عنوانات 30تا 36 بولڈ فونٹ 30-36pt، فصول 24 بولڈ فونٹ  24pt، ذیلی عنوانات 18 بولڈ فونٹ  18pt، تحریر کا سائز اصل متن سولہ  فونٹ 16pt اور حاشیہ 13 فونٹ 13pt پر مشتمل ہونا چاہیے۔

  1. ہر باب متوازن فصول پر مشتمل ہو اور تمام ابواب کی فصول حجم و ضخامت میں مناسب و موزوں ہوں۔
  2. جدید طرزِ تصنیف اپناتے ہوئے ہر باب کے آغاز میں پہلے ایک صفحہ پر جلی (بولڈ ) حروف سے باب کا نام لکھا جائے۔ صفحہ کی عقبی جانب خالی چھوڑ دی جائے اور اگلے صفحہ (سامنے/ بائیں جانب والے) سے تحریر کا آغاز کیا جائے (پرنٹ نکالتے وقت اس چیز کا بالخصوص اہتمام کیا جائے کہ صفحہ کی ایک جانب ہی پرنٹ نکالیں نہ کہ دونوں سائیڈ پر)۔
  3. ذیلی عناوین صفحہ کے دائیں جانب جلی (بولڈ) حروف  سے لکھیں۔
  4. تحریر میں پیرا بندی اور رموزِ کتابت و علامتِ وقف (،۔؟”“!...) وغیرہ کا لحاظ رکھا جائے۔
  5. اختتام پر اپنے اخذ کردہ نتائج اور اگر رائے میں ”تفرد“ ہو تو اس کا نمایاں اظہار ہو۔
  6. حوالہ جات اور حواشی ہر صفحے کے نیچے(Footnote) کی صورت میں ہی دیئے جائیں۔
  7. متن میں موجود ابہام کی وضاحت حاشیہ میں کی جائے یا قوس خاص [……] (...) لگا کر اس کے درمیان لکھا جائے۔
  8. حوالہ دیتے وقت پہلی جگہ مکمل حوالہ لکھا جائے۔تقریباً تمام کتبِ حدیث مخرج و محقق دستیاب ہیں اس لیے حوالہ میں رقم الحدیث، باب و فصل کا تذکرہ بھی کر دیا جائے تاکہ متعلقہ طبع دستیاب نہ ہونے کی صورت میں بھی اصل متن تک رسائی ممکن ہو سکے۔ یاد رہے! حوالہ لکھتے وقت بہت احتیاط کریں کہ ممتحن آپ کے لکھے حوالہ جات کو چیک کریں گے، بے احتیاطی یا غلط حوالہ جات تحریر کرنے کی صورت میں دیانتِ علمی کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ آپ امتحان میں ناکام قرار پائیں گے۔

    کتب حدیث کے علاوہ دیگر کتب کا حوالہ دینے کا طریقہ

پہلی مرتبہ حوالہ: ابن کثیر، اسماعیل بن عمر بن کثیر، البدایہ والنہایہ، بیروت،مکتبۃ المعارف،1990ء،ج13، ص 80۔

دوبارہ حوالہ دیں تو شہر، مکتبہ اور سنِ اشاعت نہیں لکھنا: ابن کثیر،اسماعیل بن عمر بن کثیر، البدایہ والنہایہ، ج13، ص82۔

نوٹ : دو حوالہ جات ایک ہی جیسے ہوں تو دوسرے حوالہ کی جگہ ایضاً لکھا جائے گا۔

کتبِ حدیث کا حوالہ دینے کا طریقہ: قشیری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ، باب فضل الوضوء، رقم الحدیث: 534۔

                           ابو داؤد، سلیمان بن اشعث ،سنن ابی داؤد، کتاب الترجل، باب فی اصلاح الشعر، رقم الحدیث: 4163

  1. آیاتِ قرآنیہ میں سورۃ کا نام، نمبر، اس کے بعد آیت نمبر لکھیں مثلاً:  سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 14 کو یوں لکھیں: (البقرہ 14:2)
  2. مصادر و مراجع کی فہرست بناتے وقت الف بائی ترتیب کا لازمی خیال رکھا جائے۔ یوں ہی اعلام و اماکن کی فہرست میں بھی اس کا التزام کیا جائے۔
  3. ہر مقالہ نگار ”نتیجہ از ممتحن“ پُر فارما کاپی کر کے اپنے مقالے کے آغاز میں (ٹائٹل پیج سے بھی پہلے) لگائے، اس میں مطلوبہ کوائف کو امیدوار خود احتیاط  سے درج کرے۔
  4. الشہادۃ العالمیہ کا مقالہ رجسٹر ہونے کے بعد کسی بھی قسم کی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔
  5. مقالہ جمع کروانے کی آخری تاریخ 01 شعبان المعظم ہے۔ مقالہ لکھنے کے بعد امیدوار اپنا مقالہ ادارے کے پرنسپل کو جمع کروائے اور پرنسپل صاحبان تمام امیدواران کے مقالہ جات کو ایک جگہ جمع کر کےشعبۃ الامتحانات کنز المدارس بورڈ کو ڈاک کے ذریعے ارسال کریں۔

نوٹ: پرنسپل ادارہ کوئی بھی مقالہ جمع کرنے سے پہلے چیک کر لے کہ اس پر مشرف کے تصدیقی دستخط  ہیں یا نہیں۔ اگر نہ ہو تو مقالہ جمع نہ کرے بلکہ طالبِ علم کو پابند کرے کہ وہ مشرف سے اس پر دستخط کروا  کر جمع کروائے۔

نوٹ: مقالہ جات کی سافٹ کاپی شعبۃ الامتحانات کنز المدارس بورڈ کے میل آئی ڈی پر  میل کرنا  لازم ہو گا، یہ کام پرنسپل ادارہ کے ذمہ ہو گا۔

پوسٹل ایڈریس

: شعبۃ الامتحانات، کنز المدارس بورڈ، ایوب کالونی نمبر 1، گلی نمبر 4، سابقہ انمول ہسپتال، جھنگ روڈ، فیصل آباد

میل آئی ڈی

:  [email protected]

 

  1. رجسٹرڈ مقالہ پورا کرنے کی مدت زیادہ سے زیادہ 2 سال ہو گی؛ مثلاً دسمبر 2022ء میں مقالہ رجسٹر ہوا تو نومبر 24 0 2 ء تک وہی ایک رجسٹرڈ مقالہ پورا کیا جائے گا۔
  2. ایک ہی موضوع کے تحت اگر کئی با حثین (Researcher) کی تحقیقات ہوں تو سب کا مواد و انداز مختلف ہونا ضروری ہے، وگرنہ (Plagiarism) شمار کیا جائے گا اور سب کا کام منسوخ کر دیا جائے گا۔

نوٹ: باحث کے کام کو منسوخ یا قبول کرنےکی مجاز کنز المدارس بورڈ کی طرف سے متعین کردہ مجلس ہو گی۔

مقالہ کی تاریخ میں  توسیع کرانے کا طریقہ کار :

  1. شعبۃ الامتحانات کنز المدارس بورڈ میں تحریری درخواست جمع کروانا ہو گی۔ اس درخواست میں امیدوار مقالہ مکمل نہ ہونے کی وجوہات اور آئندہ مکمل کرنے کے عزائم کو ذکر کرے  گا۔

مقالہ نگاری کے مراحل  برائے درجہ تخصص سال دوم

مقالہ نگاری (Thesis Writing) کے لئے درجہ بدرجہ درج ذیل مراحل ہیں:

  1. ادارہ کی طرف سےامید وار کی رہنمائی کے لیے ایک Supervisor کا تقرر کیا جائے۔
  2. امیدوار اپنے سپروائزسے راہنمائی لے کر تین موضوعات کی فہرست تیار کرےجن پر وہ  ریسرچ  کرنا چاہتا ہے۔
  3. ادارہ تین یا پانچ مختلف جامعات کے ماہر اساتذہ  و مفتیان کرام پر مشتمل  ایک کمیٹی  (بورڈ آف سٹڈیز) مقرر کرے اس کمیٹی کے سامنے طلباء کے ریسرچ کے عنوانات پیش کیے جائیں ، یہ کمیٹی ریسرچ کے03  عنوانات میں سے کسی ایک موضوع   کی منظوری (Approval) دے۔
  4. موضوع کی منظوری کےبعد  امیدوار  اپنے سپروائز سے راہنمائی لے کر Synopsis یعنیThesis کا ڈھانچا تیار کرے۔
  5. کنز المدارس بورڈ کی طرف سے مفتیانِ کرام اور ریسرچ کے ماہر افراد پر مشتمل، پانچ رکنی  ریسرچ کونسل قائم  کی جائے۔ ریسرچ کونسل کے سامنے امیدوار کے مرتب کردہ Synopsis of Thesis پیش کیے جائیں اور امیدوار عملی طور پر ریسرچ کونسل کے سامنے پیش کر  Synopsis of Thesis  کا دفاع کرتے ہوئے ریسرچ کونسل کو مطمئن کرے ۔ اگر ریسرچ  کونسل مطمئن ہو جائے تو امیدوار اپنا کام جاری رکھ سکے گا ورنہ اسے ضمنی موقع دیا جائے گا اور کسی نئی تاریخ پر وہ دوبارہ پیش ہو گا۔
  6. ریسرچ کونسل کے سامنے کامیاب دفاع کے بعد امیدوار مقالہ(Thesis) کو  مقررہ مدت یعنی  چھ ماہ میں  مکمل کرنے کا پابند ہے تاہم سپروائز کی سفارش  (Written recommendation) پر مدت بڑھائی جا سکتی ہے۔ یہ سہولت صرف ایک دفعہ کے لیے ہے۔
  7. ادارہ کی طرف سے مقرر کردہ ماہر انٹرنیٹ پر مقالہ کی تفتیش کرے گا کہ سرقہ یا چوری کا مواد نہ ہو، اس کے لیے مقالہ کا پلیجرزم (Plagiarism) ٹیسٹ کروا کر نتیجہ مقالہ کے ساتھ جمع کروایا جائے۔
  8. تخصص (Specialization)کے Thesis کی جانچ (Evaluation) کسی اور ادارے کےماہر (Specialist) یا مفتی صاحب سے کروائی جائے گی، ممتحن  تفتیش کر کے مقالے کے معیار کو جانچیں گے، اگر ممتحن کی طرف سے مقالے کے  معیار پر سوالات قائم کیے جاتے ہیں یا اشکالات وارد کیے جاتے ہیں تو  امیدوار سوالات کے جوابات دینے اور اشکالات دور کرنے کا پابند ہے۔
  9. ممتحن کی مثبت رپورٹ پر کنزالمدارس بورڈ حتمی Viva کی تاریخ کا اعلان کرےگا۔
  10. امتحان کے وقت امید وار کا   Viva لیا جائے گا۔ اس وقت امتحان میں سپروائزر اور ادارہ کے پرنسپل یا بورڈ کے مقرر کردہ نمائندہ موجود ہوں گے اور ممتحن کے جاری کردہ نتیجہ پر دستخظ فرمائیں گے اور شعبۃ الا متحانات میں جمع کروائیں گے۔

نوٹ : مقالہ میں پاس ہونے کے لیے کم از کم 50 فیصد نمبر حاصل کرنا ضروری ہے۔

کنزالمدارس بورڈ پاکستان کے تعلیمی نظام کی درجہ بندی


 

امتحانات کے دوران نقل/غیر اخلاقی حرکات اور پرچہ کی منسوخی

امتحانات کے دوران نقل یا غیر اخلاقی حرکات کرنے کی صورت میں  پرچہ منسوخ (Cancel) کرنے کے اصول  و ضوابط درج ذیل ہیں:

.

کمرۂ امتحان اور موبائل فون

کمرۂ امتحان میں موبائل فون لانا ممنوع (Forbidden) ہے۔ اگر کوئی اُمیدوار کمرۂ امتحان میں موبائل لے کر آیا تو اس کے موبائل کو  ضبط (Confiscate) کر لیا جائے گا اور پرچہ ختم ہونے پر واپس کیا جائے گا لیکن ساتھ میں متنبہ (Warn) کر دیا جائے گا  کہ آیندہ اگر مرکزِ امتحان میں موبائل لے کر آنا پایا گیا تو پرچہ منسوخ (Cancel) کر دیا جائے گا۔

طلبہ یا طالبات کا ایک دوسرے کی جگہ پر پرچہ دینا

سالانہ یا ضمنی امتحان میں اگر کسی اُمیدوار کی جگہ کوئی دوسرا  امتحان دیتا ہے تو امیدوار کا امتحان منسوخ کر دیا جائے گا اور اگر دوسرا فرد جو امیدوار کی جگہ امتحان دینے آیا وہ بھی طالبِ علم/طالبہ ہےتو اس کے اپنے تمام پرچہ جات منسوخ کر دئیے جائیں گے۔

مرکزِ امتحان میں تاخیر سے آنے والے امیدوار کے لئے اصول

امیدوار کو مقررہ وقت کے بعد امتحان میں شامل ہونے کی اجازت نہیں ہے البتہ اگر امیدوار کسی معقول عذر یا حادثہ کی وجہ سے لیٹ ہو گیا تو نگرانِ مرکزِ امتحان کو صورتحال دیکھ کر 30 منٹ تک                 کی تاخیر پر امتحان کی اجازت دینے کا اختیار ہے۔ 30 منٹ سے زائد تاخیر پر امتحان میں شامل ہونے کی مطلقاً اجازت نہیں ہے۔

نوٹ:

پرچہ دینے کی اجازت کی صورت میں جوابی کاپی حل کرنے کے لئے اختتامی وقت سے زیادہ وقت نہیں دیا جائے گا۔

پیپرپیٹرن  کنزالمدارس بورڈ  پاکستان

متوسطہ دوم تا تخصصات تمام درجات کا سوالیہ پیپر تین حصوں پر مشتمل ہوگا:

(1) کثیرالانتخابی سوالات(  MCQ’s)        :       25x1=25

”پہلے حصے“ میں 25معروضی سوالات نصاب کے پہلے  40فیصد سے   دئیے جائیں گے اور تمام سوالات کا حل مطلوب ہوں گے ہر سوال کا 01 نمبر ہو گا۔ انداز یہ ہو گا:

مذکورہ انداز پر 25 معروضی سوالات ہوں گے ۔

(2) مختصرسوالات( SQ’S)         :       15x3=45

”دوسرے حصے“ میں کل 20 سوالات دئیے جائیں گے اور 15  سوالات کا حل مطلوب ہوگا۔ ہر سوال کے 03نمبر ہوں گے۔ مختصر سوالات درج ذیل چیزوں سے کیے جا سکتے ہیں:

٭  تعریفات پوچھی جائیں گی۔

٭ کتاب کی فنی ابحاث سے مختصرسوال پوچھا جائے گا جس کا جواب تقریبا 2 لائنوں پر مشتمل ہوگا۔

٭  عربی عبارت پراعراب پوچھاجائے گا اور وہ عبارت تقریباً ایک لائن پرمشتمل ہو گی۔

٭  کسی عربی عبارت (تقریبا ایک لائن)  کا ترجمہ پوچھا جائےگااورعبارت کا مفہومی /لفظی ترجمہ مطلوب ہو گا۔

٭  کسی لفظ یا جملہ کی مراد پوچھی جا سکتی ہے۔

٭ ایک/آدھی  لائن پر مشتمل عربی عبارت کی مختصر(تقریباً 3 لائنوں پر مشتمل ) وضاحت

(3) طویل سوالات(LQ’S)   :        3x10=30

”تیسرےحصے“ میں کل 5سوالات دئیے جائیں گے اور 3سوالات کا حل مطلوب ہو گا۔ ہر سوال کے 10نمبر ہوں گے۔ انشائیہ سوالات درج ذیل چیزوں سے کیے جا سکتے ہیں :

٭  تعریفات، اقسام، امثلہ  نیز تعریفات کا امثلہ  پر انطباق   ٭ قواعدو ضوابط اور اس کا اجراء

٭ اختلافی مسئلے کا بیان مع دلائل                             ٭کسی مغلق/ مبہم مقام کی تشریح  وتوضیح

٭ اعتراضات و جوابات /قیل و قال                     ٭اغراضِ مفسر/ماتن

٭تقریباً 8 سے 10 لائنوں پر مشتمل بحث کا خلاصہ                ٭اثباتِ مسئلہ /مؤقف

٭  تقریباً چار لائنوں پر مشتمل عبارت پر اعراب یا ترجمہ اور اس کی مختصر یا مکمل وضاحت

٭ ماتن/شارح کے حالات  اور مقام و مرتبہ، کتاب کا اسلوب و مقام مرتبہ

یاد رہے! سوالیہ پیپر 2  ہوں گے:

(1)معروضی :جس کے کل 25 نمبر ہوں گے اور اس کے لیے 30منٹ دیئے جائیں گے۔

(2)  انشائیہ:  جس میں مختصر اور طویل سوالات ہوں گے۔ اس کے کل 75نمبر ہوں گے  اوراس کے لیے 2گھنٹے 30منٹ دئیے جائیں گے۔

اہم وضاحت: متوسطہ سے تخصصات تک تمام درجات کا معروضی پیپر اردو میں  ہو گا۔ اسی طرح  متوسطہ  تا عالمیہ سالِ اول تک درجات  کا انشائیہ پیپر  اردو میں جبکہ عالمیہ سالِ دوم و تخصصات (فقہ ، حدیث  وغیرہ ) کا انشائیہ پیپر عربی میں ہو گا۔

نوٹ : تجوید وقراءت کے جن مضامین کا پیپر تحریری ہو گا اس  کا پیپر پیٹرن بھی یہی ہو گا۔

جوابی کاپی (Answer Sheet) سے متعلقہ ہدایات و شرائط

1.امیدوار جوابی کاپی پر درجہ، تاریخ، مضمون، مرکز امتحان، رول نمبر تحریر کرتے وقت تسلی کر لے کہ ان چیزوں کا اندارج درست ہے ورنہ جوابی کاپی مشتبہ ہونے کی وجہ سے کالعدم ہو جائے گی اب یہ پرچہ امیدوار کو ضمنی میں دینے کی اجازت ہو گی اور اس کا ذمہ دار خود امیدوار ہی ہے۔

2.جوابی کاپی/اضافی کاپی (B Copy) پر نگرانِ مرکزِ امتحان/معاون کے دستخط کروانا اُمیدوار کے لئے لازمی ہے، دستخط کے بغیر جوابی کاپی/اضافی کاپی کالعدم (Cancel) قرار دی جائے گی۔

3.ہندسوں (Digits) اور لفظوں (Words) دونوں طرح رول نمبر کا اندراج کرنا لازمی ہے۔

4.جوابی کاپی پر درج ہدایات کی پاسداری کرنا ہر اُمیدوار کی ذمہ داری ہے اور وہ ہدایات یہ ہیں:

(I) اُمیدوار سے متعلقہ جوابی کاپی کی تمام خالی جگہوں کا پُر ہونا ضروری ہے، بصورتِ دیگر شعبۃ الامتحانات کنزالمدارس بورڈ پاکستان ذمہ دار نہ ہو گا۔

(II) جوابی کاپی پر نام کے بجائے صرف امتحان کے لئے جاری کردہ رول نمبر ہی لکھا جائے، اس کے علاوہ نام یا کوئی مخصوص نشانی ہرگز نہ لگائیے، بصورتِ دیگر پرچہ منسوخ کیا جا سکتا ہے۔

(III) جوابات صرف شعبۃ الامتحانات کنزالمدارس بورڈ پاکستان کی جانب سے جاری کردہ جوابی کاپی پر ہی قابلِ قبول ہوں گے۔اسی طرح ایسی جوابی کاپی/اضافی کاپی جس پر نگرانِ مرکزِ امتحان کے دستخط نہ ہوں، قبول نہ کی جائے گی۔

(IV) جوابی کاپی سے صفحہ پھاڑنا یا ساتھ لے جانا  جُرم ہے جس پر تادیبی کارروائی کی جائے گی۔

(V) جوابی کاپی پر کالی اور نیلی روشنائی استعمال کریں، اس کے علاوہ کسی اور قسم کی روشنائی استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

(VI) پرچہ مکمل حل کرنے کے بعد خالی صفحات کو امیدوار لائنیں لگا کر کراس (Cross) کر دے۔

(VII) وقتِ مقررہ کے بعد امتحان میں شرکت کی اجازت نہ ہو گی۔

(VIII) نصف وقت گزرنے سے پہلے جوابی کاپی وصول نہ کی جائے گی۔

(IX) وقت ختم ہونے سے 10 منٹ قبل اضافی کاپی، جوابی کاپی کے ساتھ منسلک کر لیجئے، وقت ختم ہوتے ہی کاپی لے لی جائے گی۔

(X) اگر امیدوار کسی وجہ سے کمرۂ امتحان احتجاجاً چھوڑے گا تو کسی بھی صورت میں اس مضمون کا امتحان دوبارہ نہ لیا جائے گا۔

(XI) کمرۂ امتحان (Examination Room) میں موبائل فون اور اسی نوعیت کا کوئی دوسرا آلہ (Equipment) لے جانا سخت ممنوع ہے۔

(XII) مندرجہ ذیل میں سے کوئی بھی صورت پائی گئی تو پرچہ منسوخ کیا جا سکتا ہے:

٭  نقل کرتے یا کرواتے ہوئے پکڑے جانا یا کسی قسم کا ممنوعہ مواد بر آمد ہونا۔

٭ جوابی کاپی/حاضری شیٹ پر رول نمبر نہ لکھنا یا غلط لکھنا۔

٭ اپنے رول نمبر پر حاضری نہ لگانا۔

٭ دورانِ امتحان نظم و ضبط سے غفلت برتنا ۔

٭ دوران امتحان بدتمیزی/غیر اخلاقی حرکت کرنا۔

٭ کسی دوسرے امیدوار کی جگہ امتحان دینا یا دلوانا۔

٭ اضافی کاپی پر نگرانِ مرکزِ امتحان کے دستخط ثبت نہ کروانا۔

نوٹ:کرونا (Covid-19) سے تحفظ کے لئے گورنمنٹ کی طرف سے جاری کردہ حفاظتی اقدامات (SOP,s) پر عمل کیا جائے۔

جوابی کاپی (Answer Sheet) حل کرنے کے معاون نکات

1.جوابی کاپی کے سر ورق پر مطلوبہ جگہ میں اپنا رول نمبر، درجہ (Class)، مرکزِ امتحان کا نام و دیگر مطلوبہ کوائف کا صحیح اندراج کریں۔

2.اضافی کاپی (B Copy) کی صورت میں مذکورہ بالا کوائف کا درست اندراج اضافی کاپی پر کرنا ہرگز نہ بھولیں۔

3.اسی طرح سوالیہ پرچہ کو بھی بغور چیک کر لیجئے کہ آپ جس درجہ (Class) کا امتحان دینا چاہتے ہیں، سوالیہ پرچہ بھی اسی درجہ کا ہے یا نہیں؟

4.جوابات تحریر کرنے سے پہلے سوالیہ پرچہ بغور پڑھ لیں کہ کون سا سوال پہلے کرنا ہے اور کون سا بعد میں؟ اس کا تعین کر لیں۔

5.ہر سوال کے نمبروں کے مطابق جواب تحریر کریں، کم یا زیادہ نمبروں والے سوال کے مطابق کم یا زیادہ تحریر کریں۔

6.آپ نے کون کون سے سوالات حل کرنے ہیں، پرچہ کل کتنے نمبرز کا ہے اور کس سوال کو آپ نے کتنا وقت دینا ہے؟ اس چیز کا تعین بھی پہلے سے کر لیں۔

7.ایک سوال کے مختلف اجزا کو بالترتیب ایک جگہ حل کریں، پورے پرچے میں پھیلا کر اور منتشر کر کے نہ لکھیں۔

8.جوابات تحریر کرتے وقت انتہائی احتیاط سے کام لیں تا کہ کوئی غیر شرعی یا سخت بات زیر قلم نہ آنے پائے مثلاً:

٭ ترجمۃ القرآن کے پیپر میں غلط و فاسد (False and Corrupt) ترجمہ کرنا ۔

     ٭ قرآن و حدیث کی ایسی شرح (Explanation) کرنا جو منقول نہ ہو یا تفسیر بالرائے کرنا۔

     ٭ جلالین کے پرچہ میں اپنی طرف سے غرضِ مفسر بیان کرنا۔

     ٭ اعتقادی مسائل میں قضیہ جات کو غلط ترتیب دینا اور فاسد نتیجہ اخذ کرنا۔

     ٭ فلاسفہ کا قرآن و حدیث کے مخالف مؤقف کو تحریر کرنا اور پھر قرآن و حدیث سے اس کا رد نہ کرنا۔

٭ فقہی مسائل میں ائمہ کی طرف ایسا قول منسوب کرنا جو ان سے مروی ہی نہ ہو یا غلط نسبت کرنا مثلاً امام محمد کے قول کو امام ابو یوسف کی طرف منسوب کرنا یا غیر مفتٰی بہ کو مفتٰی بہ قرار دینا یا راجح و مرجوح کے درمیان فرق نہ کرنا۔

٭      پیپر میں کوئی ایسا عقیدہ تحریر کرنا جو عقائدِ اہلسنت سے نہ ہو یا عقائد کے پیپر میں کوئی ایسی بات تحریر کرنا کہ جس کی وجہ سے کفرِ لزومی یا التزامی لازم آتا ہو لہٰذا بھرپور اور اچھی تیاری کے ساتھ احتیاط کا دامن تھامتے ہوئے پیپر حل کیجئے۔

  1. جوابات لکھنے کے لئے بڑے بڑے حاشیے لگا کر جوابی کاپی کا سائز کم نہ کریں نیز سطریں (Lines) چھوڑ کر بھی نہ لکھیں۔
  2. مرکزِ امتحان میں موبائل فون، Scientific کیلکولیٹر وغیرہ جو چیزیں لے جانا منع ہے وہ چیزیں ہرگز نہ لے جائیں۔
  3. سرخ قلم کا استعمال نہ کریں، شہ سرخی (Headline) کے لئے نیلا (Blue) یا سیاہ مارکر (Black Marker) استعمال کریں۔ ایسا نہ ہو کہ سارا پرچہ مارکر یا قط لگے ہوئے کسی قلم (Stuck Pen) وغیرہ سے حل کیا جائے۔
  4. رف عمل (Ruff Work) کی ضرورت پڑے تو جوابی کاپی کے اوپر ہی ایک طرف ”رف عمل“ کا خانہ بنا کر رف عمل یا پڑتال کریں۔
  5. پہلے اچھی طرح سوال کو سمجھیں پھر لکھنا شروع کریں، جو جواب مطلوب ہے وہی تحریر کریں۔ سوال نمبر اور جز نمبر لکھ کر جواب لکھنا شروع کر دیں مثلاً سوال نمبر 1: جز الف۔
  6. سوالیہ پرچے میں دیئے گئے ہر سوال یا جز کو جوابی کاپی پر لکھنا ضروری نہیں بلکہ وقت کا ضیاع ہے البتہ اگر اعراب لگانے کے متعلق سوال کیا جائے تو اس جز کو جوابی کاپی پر لکھ کر اعراب لگائیں۔
  7. روزانہ مرکزِ امتحان آتے وقت اپنی تسلی کر لیں کہ رول نمبر سلپ آپ کے پاس موجود ہے۔

جوابی کاپی (Answer Sheet) گم ہونے کی صورت میں شعبۃ الامتحانات کا اُصول

اُمیدوار کی جوابی کاپی گم  ہونے کی صورت میں تحقیق و تفتیش کی جائے گی اورمتعلقہ ذمہ داران کے خلاف تادیبی کاروائی کی جائے گی۔ اگر امیدوار اس میں ذمہ دار نہ پایا گیا تو اس کو اندازے سے/دیگر مضامین کے حاصل کردہ نمبرات کے تناسب سے نمبرز نہیں دئیے جائیں گے بلکہ دوبارہ امتحان لیا جائے گا۔ دوبارہ امتحان کی  صورت میں اُمیدوار سے فیس نہیں لی جائے گی۔

لبہ/طالبات کے لئے امتحانی مرکز کی تبدیلی

مرکزِ امتحان کی تبدیلی درج ذیل شرائط کے ساتھ ہو گی:

  1. امیدوار مرکزِ امتحان تبدیل کروانے کے لئے شعبۃ الامتحانات کنزالمدارس بورڈ کی طرف سے جاری کردہ ”درخواست فارم  برائے تبدیلی مرکزِ امتحان“ پُر کرے اور پرنسپل سے تصدیق کروا کر شعبۃ الامتحانات کنزالمدارس بورڈ کو مع فیس (250روپے) سلپ ارسال کرے۔
  2. سالانہ امتحان شروع ہونے سے ایک ماہ قبل تک مرکزِ امتحان تبدیل کروایا جا سکتا ہے اس کے بعد مرکزِ امتحان تبدیل نہیں کیا جائے گا۔
  3. درخواست موصول ہونے کے بعد شعبۃ الامتحانات کنزالمدارس بورڈ درخواست کا جائزہ لے گا، اگر عذر معقول (Reasonable Excuse) ہوا تو اجازت دی جائے گی بشرطیکہ مطلوبہ مرکزِ امتحان میں اس کی گنجائش موجود ہو۔
  4. شعبۃ الامتحانات کنزالمدارس بورڈ کی جانب سے جاری کردہ درخواست فارم پر درخواست جمع (Submit) کروانا لازمی ہے۔ سادہ کاغذ پر لکھی گئی درخواست یا کسی اور فارمیٹ پر ارسال کی گئی درخواست قابلِ قبول نہیں ہے۔
  5. یہ درخواست فارم فقط مرکزِ امتحان کی تبدیلی کے لئے ہے، نتیجہ امتحان اور نتیجہ کارڈ موجودہ ادارے میں ہی ارسال کیا جائے گا۔

شرائط و ضوابط برائے معاون کاتب

  1. ایسا امید وار جس کو مستقل عذر لاحق ہے مثلاً نابیناپن، جزوی نابیناپن، مقطوع الید، فالج وغیرہ کا شکار ہو جس کے باعث وہ لکھنے کے قابل نہ ہو تو اُسے معاون کاتب کی اجازت دی جائے گی، بشرطیکہ ایسے عذر کی تصدیق پرنسپل کرے۔
  2. مستقل عذر کی صورت میں امتحانی داخلہ فارم کے ساتھ مصدقہ درخواست اور معاون کاتب کے شناختی کارڈ یا ”ب فارم“ کی کاپی شعبۃ الا متحانات کنزالمدارس بورڈ پاکستان کو ضرور ارسال کی جائے۔
  3. حقیقی عارضی عذر (مثلاً حادثہ وغیرہ) کی صورت میں بھی معاون کاتب کی اجازت دی جائے گی بشرطیکہ امید وار واقعی اس رعایت کا مستحق ہو۔

نگرانِ مرکزِ امتحان/پرنسپل فوراً کسی معاون  کاتب کا انتخاب  کر کے اُمیدوار اور کاتب کےمکمل کوائف  شعبۃ الامتحانات کنزالمدارس بورڈ   پاکستان کو میل کریں۔ شعبۃ الامتحانات کنزالمدارس بورڈ   پاکستان کی طرف سے درخواست منظور ہونے کی صورت میں معاون کاتب کی اجازت دی جائے گی۔

  1. معاون کاتب امیدوار سے کم تعلیمی قابلیت کا ہو۔
  2. اُردو اور عربی رسم الخط کی اچھی استعداد رکھنے والے کو ہی معاون کاتب کے طور پر مقرر کیا جائے تاکہ  جس کا عذر ہے اس کے نمبر کم نہ ہوں۔

نوٹ:             عذر والے  اُمیدواروں  کو پرچہ حل کرنےکےلیےعام اُمیدواروں سے آدھا گھنٹہ زیادہ وقت دیا جائے گا۔

ایمرجنسی کی صورت میں پرچہ کی منسوخی

کسی شہر یا علاقے میں ایمرجنسی کی صورت میں ازخود پرچہ منسوخ (Cancel) کرنے کی اجازت نہیں  ہو گی۔ اس کے لئے درج ذیل ہدایات پر عمل کرنا ہو گا:

  1. ایمرجنسی کی صورت میں نگرانِ مرکزِ امتحان حالات کی مکمل رپورٹ سے شعبۃ الامتحانات کنزالمدارس بورڈ کو آگاہ کرے۔ شعبۃ الامتحانات کنزالمدارس بورڈ تحقیق و تفتیش (Observation & Investigation) کے بعد نگرانِ مرکزِ امتحان کو حتمی فیصلہ سے آگاہ کر دے گا۔
  2. ایمرجنسی کے پیش نظر پرچہ منسوخ ہونے کی صورت میں وہ پرچہ آخر میں لیا جائے گا یا شعبۃ الامتحانات کنزالمدارس بورڈ نئی تاریخ کا اعلان کرے گا۔

ترقی درجہ (Improvement in Grade)  کا امتحان

گریڈ میں ترقی (Improvement in Grade) کے لئے سالانہ/ضمنی امتحان میں شرکت کی اجازت ہے اس کی درج ذیل شرائط ہیں جن پر عمل کرنا ہو گا:

  1. امیدوار کو گریڈ میں ترقی کے لئے کسی پارٹ کے ایک یا دو مضامین یا مکمل ایک یا دونوں پارٹ کا امتحان  دینے کا اختیار حاصل ہے۔
  2. گریڈ میں ترقی (Improvement in Grade) کے لئے ضروری ہے کہ جب تک اگلی کلاس کے امتحان میں شرکت نہ کی ہو تب تک پچھلی کلاس (Previous Class) کے لئے گریڈ میں ترقی (Improvement in Grade) کا امتحان دے سکتا ہے اور چونکہ عالمیہ دوم کے بعد کوئی کلاس نہیں ہے اس لئے عالمیہ دوم کی حد 2 سال ہے یعنی عالمیہ کے بعد 2 سال تک گریڈ میں ترقی (Improvement in Grade) کا امتحان دے سکتا ہے۔ اس کے بعد اجازت نہیں۔
  3. گریڈ میں ترقی (Improvement in Grade) کے امتحان کے لئے امتحانی داخلہ فارم پُر کر کے فیس سلپ کے ساتھ ارسال کرنا ضروری ہے۔
  4. امتحانی داخلہ فارم کے ساتھ گزشتہ امتحان کے نتیجہ کارڈ کی فوٹو کاپی اسی طرح ادارے کے لیٹرپیڈ پر پرنسپل کی تصدیق کے ساتھ گریڈ میں ترقی کے امتحان کی  درخواست (Application) بھی منسلک (Attach) کرنا  ضروری ہے۔
  5. امیدوار نے ایک بار گریڈ میں ترقی (Improvement in Grade) کے امتحان کے لئے اپلائی کر لیا تو اب امتحان میں شریک نہ ہونے کی صورت میں  استحقاق ختم ہو جائے گا۔ اب دوبارہ گریڈ میں ترقی کے امتحان کے لئے امتحانی داخلہ فارم جمع (Submit) نہیں کروا سکتا۔